Friday, April 22, 2011

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (39)



میرا ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے جنہیں حکم دیتا ہوں تو مانتے نہیں۔ بلاتا ہوں، تو آواز پر لبیک نہیں کہتے۔ تمہارا بُرا ہو۔ اب اپنے اللہ کی نصرت کرنے میں تمہیں کس چیز کا انتظار ہے۔ کیا دین تمہیں ایک جگہ اکھٹا نہیں کرتا اور غیرت و حمیت تمہیں جوش میں نہیں لاتی؟میں تم میں کھڑا ہو کر چلاتا ہوں اور مدد کے لیے پکارا ہوں، لیکن تم نہ میری کوئی بات سنتے ہو، نہ میرا کوئی حکم مانتے ہو یہاں تک کہ ان نافرمانیوں کے بُرے نتائج کھل کر سامنے آجائیں۔ نہ تمہارے ذریعے خون کا بدلا لیا جا سکتا ہے، نہ کسی مقصد تک پہنچا جا سکتا ہے۔ میں نے تم کو تمہارے ہی بھائیوں کی مدد کے لیے پکارا تھا۔ مگر تم اس اونٹ کی طرح بلبلا نے لگے۔ جس کی ناف میں درد ہو رہا ہو، اور اس لاغر کمزور شتر کی طرح ڈھیلے پڑ گئے جس کی پیٹھ زخمی ہو پھر میرے پاس تم لوگوں کی ایک چھوٹی سی متزلزل و کمزور فوج آئی۔ اس عالم میں کہ گویا اسے اس کی نظروں کے سامنے موت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
سید رضی فرماتے ہیں کہ اس خطبہ میں جو لفظ "متذایب" آیا ہے، اس کے معنی مضطرب کے ہیں۔ جب ہوائیں بل کھاتی ہوئی چلتی ہیں، تو عرب اس موقعہ پر "تذائبت الریح" بولتے ہیں اور بھیڑ یئے کو بھی ذئب اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اس کی چال میں ایک اضطرابی کیفیت ہوتی ہے۔ معاویہ نے مقامِ مین التمر پر دھاوا بولنے کے لیے دو ہزار سپاہیوں کا ایک دستہ نعمان ابنِ بشیر کی سر کردگی میں بھیجا۔ یہ جگہ کوفہ کے قریب امیرالمومنین کا ایک دفاعی مورچہ تھی۔ جس کے نگران مالک ابن کعب ارحبی تھے۔ گو ان کے ماتحت ایک ہزار جنگجو افراد تھے۔ مگر اس موقعہ پر صرف سو ۱۰۰ آدمی وہاں موجود تھے۔ جب مالک نے حملہ آور لشکر کو برھتے دیکھا تو امیرالمومنین (ع) کو کمک کے لیے تحریر کیا جب امیرالمومنین (ع) کو یہ پیغام ملا ہے، تو آپ نے لوگوں کو ان کی امداد کے لیے کہا، مگر صرف تین سو آدمی آمادہ ہوئے ۔ جس سے حضرت بہت بد دل ہوئے اور انہیں زجر و توبیخ کرتے ہوئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ حضرت خطبہ دینے کے بعد جب مکان پر پہنچے، تو عدی ابن حاتم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا امیرالمومنین(ع) میرے ہاتھ میں بنی طے کے ایک ہزار افراد میں اگر آپ حکم دیں تو انہیں روانہ کر دوں؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ دشمن کے سامنے ایک ہی قبیلہ کے لوگ پیش کیے جائیں۔ تم وادی نخیلہ میں جا کر لشکر بندی کرو۔ چنانچہ انہوں نے وہاں پہنچ کر لوگوں کو جہاد کی دعوت دی، تو بنی طے کے علاوہ ایک ہزار اور جنگ آزما جمع ہو گئے۔ یہ ابھی کوچ کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ مالک ابنِ کعب کا پیغام آگیا کہ اب مدد کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم نے دشمن کو مار بھگایا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مالک نے عبداللہ ابن جوزہ کو قرظہ ابنِ کعب اور مخنف ابنِ سلیم کے پاس دوڑا دیا تھا کہ اگر کوفہ سے مدد آنے میں تاخیر ہو تو یہاں سے بر وقت امداد مل سکے۔ چنانچہ عبداللہ دونوں کے پاس گیا مگر قرظہ سے کوئی امداد نہ مل سکی۔ البتہ مخنف ابنِ سلیم نے پچاس آدمی عبدالرحمن ابنِ مخنف کے ہمراہ تیار کیے، جو عصر کے قریب وہاں پہنچے۔ اس وقت تک یہ دو ہزار آدمی مالک کے سو آدمیوں کو پسپا نہ کر سکے تھے۔ جب نعمان نے ان پچاس آدمیوں کو دیکھا، تو یہ خیال کیا کہ اب ان کی فوجیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ لہذا وہ میدان سے بھاگ کھڑا ہوا۔ مالک نے ان کے جاتے جاتے بھی عقب سے حملہ کر کے ان کے تین آدمیوں کو مار ڈالا۔


امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات 28



( جو اس خطبے کی ایک فصل کی حیثیت رکھتا ہے جس کا آغاز " الحمد للہ غیر مقنوط من رحمتھ " سے ہوا ہے اوراس میں گیارہ تنبیہات ہیں  )
دنیا نے پیٹھ پھیر کر اپنے رخصت ہونے کا اعلان اور منزل عقبیٰ نے سامنے آ کر اپنی آمد سے آگاہ کر دیا ہے ۔ آج کا دن تیاری کا ہے اور کل دوڑ کا ہو گا ۔ جس طرف آگے بڑھنا ہے، وہ تو جنت ہے اور جہاں کچھ اشخاص (اپنے اعمال کی بدولت بلا اختیار پہنچ جائیں گے وہ دوزخ ہے کیا موت سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا کوئی نہیں اور کیا اس روز مصیبت کے آنے سے پہلے عمل (خیر) کرنے والا ایک بھی نہیں، تم امیدوں کے دور میں ہو جس کے پیچھے موت کا ہنگامہ ہے ۔ تو جو شخص موت سے پہلے ان امیدوں کے دنوں میں عمل کر لیتا ہے تو یہ عمل اُس کیلئے سودمند ثابت ہوتا ہے اور موت اُس کا کچھ بگاڑ  نہیں سکتی اور جو شخص موت سے قبل زمانہ امید و آرزو میں کوتاہیاں کرتا ہے تو وہ عمل کے اعتبار سے نقصان رسیدہ رہتا ہے اور موت اس کیلئے پیغام ضرر لے کر آتی ہے ۔ لہٰذا جس طرح اس وقت جب ناگوار حالات کا اندیشہ ہو نیک اعمال میں منہمک ہوتے ہو، ویسا ہی اس وقت بھی نیک اعمال کرو جب کہ مستقبل کے آثار مسرت افزا محسوس ہو رہے ہوں۔ مجھے جنت ہی ایسی چیز نظر آتی ہے جس کا طلب گار سویا پڑا ہو اور جہنم ہی ایسی شے دکھائی دیتی ہے جس سے دور بھاگنے والا خواب غفلت میں محو ہو، جو حق سے فائدہ نہیں اٹھاتا، اسے باطل کا نقصان و ضرر متعلق سب سے زیادہ دو ہی چیزوں کا خطرہ ہے ۔ ایک خواہشوں کی پیروی اور دوسرے امیدوں کا پھیلاوٴ۔ لہذا جب تک اس دنیا میں ہو اس دنیا سے وہ زاد راہ حاصل کر لو جس کے ذریعے کل اپنے نفس کا تحفظ کر سکو ۔
سید رضی کہتے ہیں کہ اگر کوئی کلام گردن پکڑ کر زہد و نیوی کی طرف لانے والا اور عمل اخروی کیلئے مجبور و مضطر کر دینے والا ہو سکتا ہے تو وہ کلام ہے جو امیدوں کے بندھنوں کو توڑنے اور  وعظ و سرزنش سے اثر پذیری کے جذبات کو مشتعل کرنے کیلئے کافی و وافی ہے ۔ اس خطبے میں یہ جملہ ”الاوالیوم المصمار و غذا السباق السبعة الجنة و الغایة النار“ تو بہت ہی عجیب و غریب ہے ۔ اس میں لفظوں کی جلالت، معنی کی بلندی، سچی تمثیل اور صحیح تشبیہ کے ساتھ عجیب اسرار اور باریک نکات ملتے ہیں۔ حضرت امام علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا”السبعة الجنة و الغایة النار“ میں بمعتی مقصود کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے دو جداگانہ لفظیں ”السبقة الغلیة“ استعمال کی ہیں۔ جنت کیلئے لفظ ”سبقة“(بڑھنا) فرمائی ہے اور جنہم کیلئے یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ سبقت اس چیز طرف کی جاتی ہے جو مطلوب و مرعوب ہو اور یہ بہشت ہی کی شان ہے اور دوزخ میں مظلوبیت و مرغوبیت کہاں کہ اس کی جستجو و تلاش میں بڑھا جائے ۔ (نعوذ باللہ منہا ) چونکہ البقة النار کہنا صحیح و درست نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لئے والغایة النار فرمایا اور غایت صرف منزل منتہا کو کہتے ہیں۔ اس تک پہنچنے والے کو خواہ رنج و کوفت ہو یا شادمانی و مسرت ۔ یہ ان دونوں معنوں کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہر صورت اسے مصبر و مآل (باز گشت ) کے معنی میں سمجھنا چاہیے اور ارشاد قرآنی ہے ۔ ”قُل تَمَنْعُوا فَانً مَصِبْرَ کُمْ اِلَی النًار“(کہو کہ تم دنیا سے اچھی طرح حظ اٹھا لو تو تمہاری باز گشت جہنم کی طرف ہے ) یہاں مصبر کم کی بجائے سیقنکم کہنا کسی طرح صحیح و درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس میں غور و فکر کرو اور دیکھو کہ اس کا باطن کتنا عجیب اور اس کا گہراوٴ نطافتوں کو لئے ہوئے کتنی دور تک چلا گیا ہے اور حضرت امام علی علیہ السلام کا بیشتر کلام اسی انداز پر ہوتا ہے اور بعض روایتوں میں ”السبقة بصم سین“ بھی آیا ہے اور سبقة اُس مال و متاع کو کہتے ہیں جو آگے نکل جانے والے کیلئے بطور انعام رکھا جاتا ہے ۔ بہر صورت دونوں کے معنی قریب قریب یکساں ہیں اس لئے کہ معاوضہ و انعام کسی قابل مذمت فعل پر نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی اچھے اور لائق ستائش کارنامے کے بدلے ہی میں ہوتا ہے ۔
بشکریہ مباھلہ ڈاٹ کام
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات 23



جس میں فقراء کو زہد اور سرمایہ داروں کو شفقت کی ہدایت دی گئی ہے  ۔
ہر شخص کے مقسوم میں جو کم یا زیادہ ہوتا ہے ، اسے لے کر فرمان قضا آسمان سے زمین پر اس طرح اترتے ہیں جس طرح بارش کے قطرات لٰہذا اگر کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے اہل و مال و نفس میں فراوانی و وُسعت پائے تو یہ چیز اس کے لئے کبیدگی خاطر کا سبب نہ بنے۔ جب تک کوئی مرد مسلمان کسی ایسی ذلیل حرکت کا مرتکب نہیں ہوتا کہ جو ظاہر ہو جائے، تو اس کے تذکرہ سے اسے آنکھیں نیچی کرنا پڑیں اور جس سے ذلیل آدمیوں کی جراٴت بڑھے ۔ وہ اس کامیاب جواری کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے مرحلے پر ہی ایسی جیت کا متوقع ہوتا ہے ، جس سے اسے فائدہ حاصل ہو اور پہلے نقصان ہو بھی چکا ہے ، تو وہُ دور ہو جائے ۔ اسی طرح وہ مسلمان بد دیانتی سے پاک دامن ہو، وہ اچھائیوں میں سے ایک کا منتظر رہتا ہے ۔ یا اللہ کی طرف سے بلاوا آئے تو اس شکل میں اللہ کے یہاں کی نعمتیں ہی اس کے لئے بہتر ہیں اور یا للہ تعالیٰ کی طرف سے (دنیا کی ) نعمتیں حاصل ہوں تو ا س صورت میں اس کے مال بھی ہے اور اولاد بھی اور پھر اس کا دین اور عزتِ نفس بھی برقرار رہے۔ بیشک مال و اولاد دنیا کی کھیتی اور عمل صالح آخرت کی کشتِ زار ہے اور بعض لوگوں کے لئے اللہ ان دونوں چیزوں کو یکجا کر دیتا ہے ۔ جتنا اللہ نے ڈرایا ہے اتنا اس سے ڈرتے رہو اور اتنا اس سے خوف کھاؤ کہ تمہیں عذر نہ کرنا پڑے ۔ عمل بے ریا کرو اس لئے کہ جو شخص کسی اور کے لئے عمل کرتا ہے ۔ اللہ اس کو اسی کے حوالہ کر دیتا ہے ہم اللہ سے شہیدوں کی منزلت نیکوں کی ہمدمی اور انبیاء کی رفاقت کا سوال کرتے ہیں۔
اے لوگو! کوئی شخص بھی اگرچہ وہ مالدار ہو اپنے قبیلہ والوں اور اس امر سے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے اس حمایت کریں بے نیاز نہیں ہو سکتا اور وہی لوگ سب سے زیادہ اس کے پشت پناہ اوراس کی پریشانیوں کو دور کرنے والے اور مصیبت پڑنے کی صورت میں اس پر شفیق و مہربان ہوتے ہیں۔ اللہ جس شخص کا سچا ذکرِ خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے ۔ تو یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے ۔ جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے ۔
اسی خطبہ کا ایک جزیہ ہے ۔
دیکھو تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے قریبیوں کو فقر و فاقہ میں پائے تو ان کی احتیاج کو اس امداد سے دُور کرنے میں پہلو تہی نہ کرے جس کے روکنے سے یہ کچھ بڑھ نہ جائے گا اور صرف کرنے سے اس میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ جو شخص اپنے قبیلے کی اعانت سے ہاتھ روک لیتا ہے ۔ تو اس کا تو ایک ہاتھ رکتا ہے لیکن وقت پڑنے پر بہت سے ہاتھ اس کی مدد سے رُک جاتے ہیں جو شخص نرم خو ہو وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے شریف رضی فرماتے ہیں کہ یہاں پر غفیرة کے معنی کثرت و زیادتی کے ہیں اور یہ عربوں کے قول الجم الغفیر اور الجماء الغفیر (اژدہام) سے ماخوذ ہے اور بعض روایتوں میں غفیرہ کے بجائے عفوہ ہے اور عفوہ کسی شے کے عمدہ اور منتخب حصہ کو کہتے ہیں۔ یوں کہا جاتا ہے اکلت عفو ة الطعام یعنی میں نے منتخب اور عمدہ کھانا کھایا ۔ ومن یقبض یدہ عن عشیرتہ (تا آخر کلام) کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس جملہ کے معنی کتے حسین و دلکش ہیں ۔ حضرت کی مراد یہ ہے کہ جو شخص اپنے قبیلہ سے حُسنِ سلوک نہیں کرتا س نے ایک ہی ہاتھ کی منفعت کو روکا۔ لیکن جب ان کی امداد کی ضرورت پڑے گی ۔ اور ان کی ہمدردی و اعانت کے لیے لاچار و مضطر ہو گا تو وہ ان سے بہت سے بڑھنے والے ہاتھوں اور اٹھنے والے قدموں کی ہمدردریوں اور چارہ سازیوں سے محروم ہو جائے گا۔
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان



No comments:

Post a Comment